Friday, December 30, 2011

آپ کے مسائل اور ان کا حل نئی ترتیب کے ساتھ منظر عام پر

اہل علم ساتھیوں کو خوشخبری دی جاتی ہے کہ مقبول خاص و عام مجموعہ فتاوی آپ کے مسائل اور ان کا حل نئی ترتیب و اضافہ کثیر کے ساتھ
ہندوستان میں بھی شائع ہو گیا ہے، ترتیب جدید میں کن کن امور کا لحاظ رکھا گیا ہے،صاحب پیش لفظ مفتی خالد محمود ان سے یوں متعارف کراتے ہیں:
1ہر ہر جزئیہ کی تخریج کی گئی ہے
2 بہت سی جگہ ایک جواب میں کئی کئی جزئیات تھے تو وہاں ہر ہر جزئیہ کی علاحدہ  علاحدہ تخریج کی گئی ہے
3 کوشش کی گئی ہے کہ ہر ہر جزئیہ کی تخریج متعلقہ صفحہ میں درج کی جائے
4  ہرحوالہ میں باب، فصل اور مطلب وغیرہ کے التزام کے ساتھ طبع کا حوالہ  بھی دیا گیا ہے
5 تمام  مسائل پہ نظر ثانی کی گئی ہے
 6 کہیں کہیں جواب میں غیر مفتی بہ قول کو اختیار کیا گیا تھا اسے تبدیل کر کے مفتی بہ قول کے مطابق کر دیا گیا ہے
بہت سے مسائل  جو ان جلدوں کےچھپنے کے بعداخبارات میں شائع ہوئے تھے، موضوع کے اعتبار سے انکا بھی اضافہ کیا گیا ہےجو ایک کثیر تعداد میں ہیں
7 مسائل میں بعض جگہ تکرار تھا اس تکرار کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اگر کسی سوال یا جواب کو دوبارہ مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے تو اسے بر قرار رکھا گیا ہے بعض جگہ جواب میں بہت اختصار تھا جس سے مسئلہ کی صورت واضح نہیں ہوتی تھی اسے قدرے وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے
8 قادیانیت سےمتعلق بعض سوالات کے جوابات حضرت شہیدؒ نے قدرے تفصیل سے دئےتھے اور علاحدہ شکل کی صورت میں شائع ہوئے تھے انہیں بھی اس میں شامل کر دیا گیا ہےبعض جلدوں میں مسائل اپنے موضوع کے اعتبار سے متعلقہ جگہ پر نہیں تھے انہی متعلقہ موضوع کے تحت کیا گیا ہے اس طرح کئی جلدیں خصوصا جلد دوم،ہفتم اور ہشتم کی ترتیب خاصی بدل چکی ہے
9 پہلے تمام جلدیں عام کتابی سائز میں تھیں اب تمام جلدوں کو فتاوی کے عام سائز پر شائع کیا گیا ہے ،بڑے سائز کی وجہ سےاب یہ مجموعہ آٹھ جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ کتاب پر ایک طائرانہ نظر 


  

Thursday, November 3, 2011

تعارفِ علمی خطبات


اللہ جل شانہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اور انھیں گمراہی سے بچانے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا ، جس کی آخری کڑی فخر کائنات حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔ آپؐ نے اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچایا اور بندوں کا رشتہ معبود حقیقی سے جوڑا، آپؐ کے بعد علمائے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوئی، انھوں نے بھی ہر زمانہ میں اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیا، کتاب وحکمت کی تعلیم کے ساتھ وعظ وارشاد سے بھی تزکیۂ نفوس فرمایا۔ اور العلماء ورثۃالأنبیاء کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کردیا۔
     انہی عظیم المرتبت علماء میں سے ایک تابندہ شخصیت: محدث جلیل، متکلم اسلام، شارح حجۃ اللہ البالغہ، فقیہ النفس حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم (شیخ الحدیث وصدر المدرسین  دار العلوم دیوبند  )کی ہے۔ جن کے مواعظ کی دو جلدیں  بنام' علمی خطبات' ہدیۂ ناظرین کی جارہی ہے، حضرت موصوف کو حق تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے اور کمالات سے نوازا ہے، آپ کا ذوق لطیف، طبیعت سادہ اور نفیس ہے، مزاج میں استقلال واعتدال ہے، حق وباطل اور صواب وخطا کے درمیان امتیاز کرنے کی وافر صلاحیت رکھتے ہیں اور حقائق ومعارف میں یکتائے زمانہ ہیں، چونکہ حضرت والا نے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ کی مایہ ناز تصنیف 'حجۃ اللہ البالغہ' کی شرح لکھی ہے، جس کا نام ' رحمۃاللہ الواسعہ' ہے( یہ شرح پانچ جلدوں میں مطبوعہ اور مقبول خاص وعام ہے) اور ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ دار العلوم دیوبند  میں پندرہ بیس سال تک اس کا کامیاب درس دیا ہے، اس لئے حکمت شرعیہ سے آپ کو خاص مناسبت ہے، چنانچہ موصوف کا ہر درس، ہر تقریر اور ہر تحریر علمی نکات ولطائف اور اسرار وحکم سے لبریز ہوتی ہے۔ موصوف آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے رازہائے سربستہ سے اس طرح پردہ اٹھاتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے جیسے علوم وفنون کا ایک بحر ذخار موجزن ہے، خدا وندقدوس نے آپ کو رسوخ فی العلم کے ساتھ مرتب گفتگو کا سلیقہ بھی عطا فرمایا ہے، جس کی نظیر نہ صرف ہم عصروں میں بلکہ زمانہ ماضی میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ آپ کی ہر تقریر اور ہر تحریر حسن ترتیب اور مشکل کو آسان بنانے میں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے اور گنجینۂ علم وحکمت ہوتی ہے۔
     آپ کے سحر آفریں، علم وحکمت سے لبریز، لاجواب اور بے مثال خطابات کو عوام وخواص بہت دلچسپی اور شوق سے سنتے ہیں، جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان موصوف مخصوص افہام وتفہیم اور حکیمانہ اسلوبِ بیان کی وجہ سے خاص طور پر مقبول ہیں۔ بظاہر تقریر میں نہ جوش وخروش ہوتا ہے، نہ پُرتکلف انداز بیان، نہ خطیبانہ ادائیں، مگر خطابات اس قدر مؤثر اور مسحور کن ہوتے ہیں کہ سامعین سراپا گوش بن جاتے ہیں اور اہل علم عش عش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تدریس وتقریر میں جوڑ نہیں، جو تدریس میں کامیاب ہوتا ہے وہ تقریر میں ناکام رہتا ہے، اور جو تقریر میں ید طولی رکھتا ہے اس کا درس پھیکا پڑجاتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تدریس کا انداز برہانی ہوتا ہے اور تقریر کا خطابی، برہانی یعنی دلائل سے مضبوط بیان، اور خطابی یعنی دلوں کو چھولینے والا انداز، چاہے کہی ہوئی باتیں کمزور ہی کیوں نہ ہوں، درس میں کمزور باتیں نہیں چلتیں، مضبوط باتیں ہی تدریس میں جان ڈالتی ہیں، اور خطاب میں اگر مضبوط باتیں بیان کی جائیں تو بیان میں جوش پیدا نہیں ہوتا اس لئے خطاب میں خطابی باتیں ضروری ہوتی ہیں۔
    غرض: دونوں خوبیوں کو جمع کرنا ضدین کو جمع کرنا ہے، پھر اگر تدریس غالب آجاتی ہے تو عوامی خطاب میں بھی وہی رنگ جھلکتا ہے۔ اور خطابی انداز غالب آجاتا ہے تو مختصر المعانی کے درس میں بھی سیرت النبی کا مزہ آتا ہے۔
   حضرت مفتی صاحب مدظلہ پر تدریس کاانداز غالب ہے، وہ ہمیشہ برہانی باتیں بیان کرتے ہیں، کبھی کوئی کچی بات نہیں کہتے، آپ کی تمام تقریریں آپ کو علمی مواد سے بھرپور ملیں گی، اور ایسی دقیق باتیں آپ کو ان خطابات میں ملیں گی جو آپ نے بہت کم کتابوں میں پڑھی ہونگی، اس لئے  ان خطبات کا نام 'علمی خطبات' رکھا  گیاہے، یعنی حکم وحکمت سے لبریز تقریریں، قارئین کرام کو بھی یہ تقریریں اسی نقطۂ نظر سے پڑھنی چاہئیں۔
   اور تدریس اور علمی انداز خطاب اگرچہ خشک ہوتا ہے، مگر حضرت والا کے بیانات خشک نہیں ، کیونکہ حضرت والا اپنے بیان میں دو باتوں کا خاص اہتمام فرماتے ہیں:
     ایک: مشکل مضمون: آپ دو تین بار بیان کرتے ہیں، کبھی بلفظہ مکرر بیان کرتے ہیں اور کبھی بالفاظ دیگر مضمون دوہراتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی طریقہ تھا، بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( کبھی) کلام کو تین مرتبہ دوہراتے تھے تاکہ آپ کی بات اچھی طرح سمجھ لی جائے۔ حضرت والدصاحب بھی اس سنت پر عمل کرتے ہیں اس لئے دقیق علمی مضامین بھی قابل فہم بن جاتے ہیں۔
    دوم: دورانِ تقریر آپ لطائف وحکایات بیان فرماتے ہیں، جب لوگوں کے ذہن بوجھل ہوجاتے ہیں تو آپ فوراً کوئی ایسا واقعہ سناتے ہیں کہ لوگ ہنس پڑیں اور ذہن اگلی بات سننے کے لئے تازہ ہوجائے، مگر واقعات برائے واقعات نہیں ہوتے، ان سے بھی استدلال فرماتے ہیں، اس لئے لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
     مگر خطابات کو جب کتابی شکل میں مرتب کیا گیا توتکرار حذف کردی گئی ، کیونکہ گفتگو میں تو یہ بات لطف دیتی ہے مگر تحریر میں بدمزگی پیدا کرتی ہے، البتہ واقعات باقی رکھے  گئےہیں، کیونکہ ان سے بیان میں استدلال کیا گیا ہے، اس طرح بیانات کتابی شکل میں بھی لطف سے خالی نہیں.

  جن عنوانات کے تحت مضامین لئے گئے  ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
خطبہ مسنونہ کے مضامین
قرآن کریم متقیوں کے لیے راہ نما کتاب ہے
 روزے اور زکوٰة کے ضروری مسائل
 روزوں کے تعلق سے رمضان کی تخصیص
 نماز عید سے پہلے خطاب
 ختم نبوت کا بیان
 عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول ہیں
 دنیا کی زندگی کس مقصد کے لیے ہے
 آگ والے اور باغ والے یکساں نہیں
زندگیوں کو راحت و سکون کیسے نصیب ہو
سورہ فاتحہ کی تفسیر
جھگڑا کھڑا کرنے والی چھ باتیں
مودودی جماعت کی پانچ گمراہیاں
دس دن میں قرآن ختم کرنا کیسا ہے؟
چاند کے بارے میں

Monday, October 31, 2011

حجۃ اللہ کو کیسے سمجھیں


 خطبۂ مسنونہ کے بعد:(اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الِاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ)                
 واجب الاحترام علمائے کرام! مجھے آج تقریر کے لئے موضوع یہ دیا گیا ہے کہ امام الہند حضرت اقدس شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ کی مشہور زمانہ، مایۂ ناز کتاب: حجۃ اﷲ البالغۃکے سلسلہ میں کچھ باتیں عرض کروں۔
     آپ سبھی حضرات جانتے ہیں کہ حجۃ اللہ البالغہ ایک دقیق کتاب ہے، مگر دقیق ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا، اس کو حل نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کوسمجھنے کے لئے محنت کرنی پڑے گی۔ عام کتابوں کے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے جتنی محنت درکار ہوتی ہے اتنی محنت اس کتاب کے لئے کافی نہیں۔ اس کے لئے محنت شاقہ برداشت کرنی پڑے گی، جبھی کتاب سمجھ میں آئے گی۔
      جیسے ایک حدیث میں ہے:أَرْبَعُُ فِیْ أُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجاھلِیَّةِ، لَنْ یَّدَعَھُنَّ الناسُ، النِّیاحةُ، والطعنُ فی الأَحْساب، والْعَدْویٰ: أَجْرَبَ بعیر فأجرب مأةَ بعیرٍ، مَنْ أَجْرَبَ البعیرَ الأولَّ؟ وَالأَنْوَاءُ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ کِذَا وَکَذَا( ترمذی شریف حدیث :٨٨٢)
      ترجمہ: میری امت میں جاہلیت کی چار چیزیں ایسی ہیں جنھیں لوگ ہرگز نہیں چھوڑ یں گے (١) نوحہ کرنا، مرنے والے کا ماتم کرنا(٢) خاندان پر اعتراض کرنا (٣) یہ اعتقاد رکھنا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے، لوگ کہتے ہیں: ایک اونٹ کو کھجلی ہوئی تو سب کو ہوگئی، ان سے پوچھو: پہلے اونٹ کو کھجلی کہاں سے لگی (٤)نچھترّوں کا عقیدہ کہ فلاں نچھتر لگا تو بارش ہوئی۔
     اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب امت ان باتوں کو نہیں چھوڑے گی تو یہ باتیں چلنے دی جائیں، ان کے ازالے کے لئے محنت نہ کی جائے، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مصلحین امت ان چار باتوں کو امت میں سے نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں، کسی بھی طریقے سے ان چار باتوں کو امت میں سے ختم کریں، جیسے کپڑے پر داغ لگ جاتا ہے تو دھوتے ہیں اور چائے گرجاتی ہے تو اس کو ہر ممکن طریقہ سے زائل کرتے ہیں،اسی طرح یہ چار خرابیاں امت میں ایسی ہیں جو آسانی سے نکلنے والی نہیں، پس مصلحین امت کی ذمہ داری ہے کہ انکے پیچھے خصوصی محنت کریں، اور کسی بھی طرح امت میں سے ان چار باتوں کو نکالیں ۔
     اسی طرح میں عرض کرتا ہوں کہ حجۃ اللہ البالغہ دقیق کتاب ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو یہ کہہ کر چھوڑ دو کہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں! ارے بھائی! انسان نے لکھی ہے، ہم ایسی کتاب لکھ نہیں سکتے تو سمجھ تو سکتے ہیں، مگر عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ سپر ڈال دیتے ہیں، ہمت ہار جاتے ہیں، کہتے ہیں: یہ کتاب بہت مشکل ہے، چیدہ چیدہ حضرات ہی اس کا مطالعہ کرتے ہیں، عام طور پر لوگوں نے اس کو چھوڑ رکھا ہے، پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ موقوف کردیا ہے، اس طرح اس کتاب کا جو عظیم فائدہ تھا اس سے امت محروم ہوگئی، اس لئے میں نے قرآن کی جو پہلی وحی ہے اس کی پانچ آیتیں پڑھی ہیں، پہلے یہ پانچ آیتیں سمجھ لی جائیں تو بات آگے بڑھائی جائے گی۔
     پڑھنے کی اہمیت
     قرآنِ کریم کی پہلی وحی میں دو اقرأ ہیں، ایک: ناخواندہ کا اقرأ ہے اور ایک: خواندہ کا، ناخواندہ کے اقرأ کی آخری حد ہے، مگر خواندہ کا اقرأ غیر محدود ہے، زندگی کے آخری سانس تک پڑھنا چاہئے۔ جب یہ دو اقرأ جمع ہوں گے تبھی قلعہ فتح ہوگا، اگر کسی نے ایک اقرأ پر اکتفا کرلیا تو قلعہ فتح نہیں ہوگا۔
      پہلی وحی کے مخاطب اول کون تھے؟ ناخواندہ لوگ! جو اپنے امی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے، ان سے پہلی بات جوکہی گئی ہے اس سے پڑھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ پھر پہلی وحی کا جو پہلا کلمہ ہے اس سے پڑھنے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
     پہلی وحی کا پہلا کلمہ: پڑھ!
     اللہ تعالیٰ کی پہلی وحی کا پہلا کلمہ ہے پڑھ! فرمایا :(اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ): پڑھ اس پروردگار کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا، جس نے تجھے نیست سے ہست کیا، اس کے نام کی مدد لے کر پڑھ وہ ضرور تجھے عالم بنادے گا۔ ذرا تو اپنی پیدائش کے مراحل کو سوچ، تجھے اللہ نے سات مراحل سے گذار کر انسان بنایا ہے، اور یہ ساتوں مراحل بے جان مادہ ہیں، ان سات بے جان مادوں سے گذار کر تجھے اشرف المخلوقات بنایا ، پس جو ہستی بے جان مادوں میں تبدیلیاں کرکے اشرف المخلوقات بناسکتی ہے وہ تجھ جاہل ناخواندہ کو اگر تو اس کے نام کی مدد سے پڑھے تو مختلف مراحل سے گذار کر عالم نہیں بناسکتی؟ ضرور بناسکتی ہے، پس تو پڑھنے کے لئے کمر کس لے۔
    تخلیقِ انسان کے سات مراحل
     تخلیقِ انسان کے سات مراحل کا تذکرہ اٹھارہویں پارے کے پہلے رکوع میں آیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اُن آیات میں انسان کی تخلیق کے سات مراحل کا بیان ہے، وہ سات مراحل کیا ہیں؟ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو مٹی سے بنایا، پھر مٹی کاست( جوہر) نکالا، ایک ہی آیت میں دو مرحلوں کا ذکر ہے: (لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِیْنٍ): مٹی کے جوہر سے ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ مٹی کا جوہر کیا ہے، ہم مٹی سے پیدا ہونے والی غذائیں کھاتے ہیں ، ان غذاؤں سے ہمارے بدن میں خون بنتا ہے، یہ خون مٹی کا سلالہ اور جوہر ہے(ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ): پھر ہم نے اس جوہر کو نطفہ بنایا، یہ تیسرا مرحلہ ہے، ہمارے بدن میں جو خون ہے اس سے خاص جوہر نکالا جاتا ہے، وہ مادہ بنتا ہے، اس مادے کو اللہ تعالیٰ رحم مادر میں پہنچاتے ہیں اور حمل ٹھہر جاتا ہے، حمل ٹھہرنے کے بعد بچہ دانی کا منھ بند ہوجاتا ہے، نہ باہر کی کوئی چیز اندر جاسکتی ہے اور نہ اندر کی کوئی چیز باہر آسکتی ہے، یہی قرار مکین: اطمینان سے نطفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ انسان کی تخلیق کے یہ تین مرحلے ہوئے، مٹی، مٹی کا جوہر اور مادہ۔
      بچہ دانی میں جاکر وہ مادہ چالیس دن میں علقة ( خون بستہ) بن جاتا ہے۔ یہ چوتھا مرحلہ ہے جو بیچ کا مرحلہ ہے، جب سات مرحلے ہیں تو بیچ میں کوئی نہ کوئی مرحلہ ضرور ہوگا، پھر اس کے بعدعلقة:مضغة ( بوٹی ) بنتا ہے پھر اس مضغہ میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھتا ہے۔ یہ کل سات مرحلے ہوئے اور یہ ساتوں مرحلے بے جان مادہ ہیں   ان سات مراحل سے گذار کر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی مخلوق بنادی جس سے بہتر اور اشرف مخلوق کوئی نہیں، بڑی برکت والی ہے وہ ذات جو احسن الخالقین ہے۔
     ان سات مرحلوں میں سے بیچ کے مرحلہ کا ذکر فرماتے ہیں:(خَلَقَ الِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ): اللہ نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا، اس پردروگار کے نام کی مدد سے پڑھ وہ تجھ جاہل ناخواندہ کو عالم بنادے گا۔ یہ پہلا اقرأ ہے جو ناخواندہ کا اقرأ ہے، وہ الف باء سے شروع ہوتا ہے اور اس کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ آدمی میں استعداد پیدا ہوجائے، جب تک استعداد پیدا نہ ہو پڑھتا رہے، دورہ پڑھ کر یہ نہ سمجھ لے کہ میں فارغ ہوگیا۔
     دوسرا  اِقْرَأْ:
      پھر دوسرا اقرأ شروع ہوتا ہے اور غور کرو انداز بیان کیسے بدل رہا ہے، فرمایا: (اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ): پڑھ اورتیرا پروردگار بڑا کریم( سخی) ہے، اس کے یہاں فضل کی کمی نہیں، جتنا پڑھے گا اتنا بڑھے گا۔ وہ تجھے بے حساب علم دے گا۔
     یہ خواندہ کا اقرأ ہے اور اس کی کم سے کم مقدار متعین ہے، مطالعہ کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد یہ مرحلہ شروع ہوتا ہے، اور اس کی آخری حد کوئی نہیں۔ کائنات میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت نانوتوی قدس سرہ نے رسالہ تحذیر الناس میں ایک حدیث لکھی ہے: عُلِّمْتُ علمَ الأولین والآخرین: مجھے اگلوں اور پچھلوں کا علم دیا گیا ہے، پوری کائنات کے پاس جتنا علم ہے اتنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے، ایسی ہستی کو اللہ نے دعا سکھلائی ہے: (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا): آپؐ دعا کیجئے کہ اے اللہ! میرے علم میں اضافہ فرما، اتنا علم رکھنے والا بھی مامور ہے کہ وہ علم میں اضافہ کی دعا کرے، معلوم ہوا کہ علم کی کوئی حد نہیں۔
         اس کے بعد فرماتے ہیں:(الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ) تیرا پروردگار وہ ہے جو قلم کے ذریعہ علم سکھاتا ہے، پہلے استاذ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتا ہے پھر قلم کے ذریعہ یعنی اگلوں نے جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھتا ہے، اس طرح (عَلَّمَ الِاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ): اللہ تعالیٰ انسان کو وہ علوم سکھاتے ہیں جو وہ نہیں جانتا یعنی جو اس نے مدرسہ کی زندگی میں نہیں جانے وہ علوم اب ذاتی مطالعہ سے حاصل کرے گا۔               
      دور تنزل
      مگر اب تنزل کا زمانہ آگیا ہے۔ طلبہ کے پڑھنے میں بھی اور اساتذہ کے پڑھنے میں بھی ، طلبہ استعداد بننے سے پہلے فارغ ہوجاتے ہیں، اور اساتذہ عربی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اردو شرحوں سے کام چل جائے گا، حالانکہ مصادر اصلیہ کا مطالعہ کئے بغیر علم میں کمال پیدا نہیں ہوسکتا، اس لئے میں نے یہ آیات کریمہ پڑھیں تاکہ ہم اپنی کمی دور کریں، اگر ہم نے اپنی کمی دور کرلی تو پھر ہمیں حجۃ اللہالبالغہ کسی سے پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی ، یہ تو دوسرے اقرأ میں آتی ہے، ہر ایک کو یہ کتاب خود پڑھنی ہے، مگر پڑھے گا وہی جو پہلے مرحلہ کے اقرأ سے کامیاب گذرا ہے، اگر پہلے مرحلہ سے کامیاب نہیں گذرا تو نہ خود مطالعہ کرسکتا ہے نہ اس کو پڑھانے سے کچھ حاصل ہوگا، میں نے یہ کتاب حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ سے پڑھی ہے۔ حضرت کثیر الاسفار تھے ،صرف چند ابواب ہم نے حضرت سے پڑھے ہیں مگر اس سے کتاب کا اندازہ ہوگیا اور ہم نے طے کرلیا کہ اس کتاب کو حل کرکے چھوڑیں گے الحمد للہ وہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوگیا، کتاب حل کرلی، بلکہ شرح بھی لکھ دی۔
     شاہ صاحب کی دور بینی
     حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت شاہ صاحب  نے مستقبل میں جو محسوسات کا دور شروع ہونے والا تھا اس کو پہلے سے محسوس کرلیا تھا، حضرت شاہ صاحب کا زمانہ عقلیت پسندی کا زمانہ تھا، مگر شاہ صاحب کو یہ احساس ہوگیا تھاکہ آگے محسوسات کا دور آرہا ہے، سائنس کا دور آرہا ہے، ہر بات محسوس کرکے امت کے سامنے پیش کرنی ہوگی۔ اب یہ دور شروع ہوچکا ہے ۔ حضرت شاہ صاحب نے حجۃ اللہ اسی دور کے لئے لکھی ہے، اور اس میں ایسے افکار پیش کئے ہیں جن کی روشنی میں تمام مسائل شرعیہ کو محسوس بناکر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے، یورپ اور امریکہ تو ترقی یافتہ ممالک ہیں، یہاں بچے بھی ہر بات کی وجہ پوچھتے ہیں، ابھی اس نے ہوش کے ناخن بھی نہیں لئے، مگر مسائل شرعیہ کے بارے میں پوچھتا ہے: ایسا کیوں ہے؟ یعنی مسئلہ کو محسوس کرکے سمجھاؤ، تبھی وہ سمجھے گا ورنہ نہیں سمجھے گا۔
     بیت اللہ میں جاکر چھت نہ دیکھنے کی وجہ:
     ٹورنٹو کی مسجد دارالسلام میں ایک باپ اپنے بچہ کو لے کر آیا، بچے کی عمر مشکل سے دس گیارہ سال رہی ہوگی، اس کا باپ کہنے لگا: اس بچہ کا ایک سوال ہے، آپ اس کا جواب دیں۔ میں نے پوچھا: پیارے ! تیرا کیا سوال ہے؟ اس نے کہا: میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جو شخص کعبہ شریف کے اندر جائے وہ چھت کی طرف نہ دیکھے، ایسا کیوں ہے؟ چھت کی طرف کیوں نہیں دیکھ سکتا؟ میں نے اس سے پوچھا: کعبہ شریف کے اندر کیوں جاتے ہیں؟ وہ بچہ تھا کیا جواب دیتا! اس لئے میں نے اسے بتایا کہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہیں، عبادت کرنے کے لئے جاتے ہیں، پھر میں نے اس سے پوچھا: پرانی عمارتیں( آثار قدیمہ) دیکھنے کے لئے اسکول کے بچے کیوں جاتے ہیں؟ اس نے کہا: عمارت دیکھنے کے لئے جاتے ہیں کہ کیسی ہے؟ کس چیز سے بنی ہے؟ اب میں نے اس کو سمجھایا کہ کعبہ شریف تمام عمارتوں سے پرانی عمارت ہے، مگر اس کے اندر جانا آثار قدیمہ دیکھنے کے لئے جانا نہیں ہے، اندر جانا عبادت کے لئے ہے، اللہ جتنی توفیق دیں نماز پڑھنی چاہئے اور نماز پڑھ کر نکل آنا چاہئے،دیواریں دیکھنا، چھت دیکھنا وغیرہ تو آثار ِ قدیمہ کی عمارتوں میں ہوتا ہے، اور دیوار دیکھنے کی ممانعت اس لئے نہیں کی کہ اس پر تو ضرور ہی نظر پڑے گی، اس سے نظر بچانہیں سکتے، اور چھت کو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ بچہ سمجھ گیا، اور مطمئن ہوکر چلاگیا، کیونکہ میں نے محسوس بناکر بات پیش کی تھی، اس لئے وہ آسانی سے سمجھ گیا۔
      اسی طرح ایک نوجوان میرے پاس آیا، یہ بھی ٹورنٹو کا واقعہ ہے، اس نے سوال کیا: دو نمازیں:ظہر اور عصر خاموش کیوں ہیں؟ اور تین نمازیں: مغرب، عشاء اور فجر جہری کیوں ہیں؟ یہ ایک دقیق مسئلہ تھا، ہمارے طلبہ بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے، وہ تو کالج میں پڑھنے والا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: آپ کی شادی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا: تم میاں بیوی گپ کب کرتے ہو؟ دن میں یا رات میں؟ اس نے کہا: رات میں، دن میں تو ضروری باتیں کرتے ہیں، میں نے کہا: آپ کے سوال کا یہی جواب ہے، دن کو اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ زیادہ باتیں کرنے کو جی نہیں چاہتا، اسی لئے سنیما، ٹھیٹر اور گانے بجانے کے پروگرام رات میں ہوتے ہیں کیونکہ رات کی فطرت میں اللہ نے انبساط رکھا ہے اوردن کی فطرت میں انقباض اور جب طبیعت میں انقباض ہو تا ہے تو نہ سنانے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو، اس لئے دن کی نماز یںخاموش ہیں، اور رات میں طبیعت میں انبساط ہوتا ہے سنانے کو بھی جی چاہتا ہے اور سننے کو بھی، اس لئے رات کی نمازیں جہری ہیں۔
      پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دن کی فطرت میں انقباض اور رات کی فطرت میں انبساط کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کو اللہ تعالیٰ نے معاش کا وقت بنایا ہے، اگر اس میں انبساط رکھا جاتا تو آدمی ٹی وی دیکھتا رہتا ، گاتا بجاتا رہتا، بیوی سے گپ کرتا رہتا۔ نہ جوب (کام) پر جاتا نہ شوپ( دوکان) پر، اس لئے اس میں انقباض رکھا تاکہ آدمی صبح اٹھ کر نہا دھو کر نوکری پر پہنچ جائے یا دوکان کھول کر بیٹھ جائے، اور رات میں کوئی دھندا نہیں ، وہ سونے کے لئے ہے، اس لئے رات میں انبساط رکھا۔ اور شریعت نے انقباض وانبساط کا احکام میں لحاظ رکھا ، اسی لئے دن کی نمازوں کو سری اور رات کی نمازوں کو جہری کردیا۔
       اس نے سوال کیا: پھر جمعہ اور عیدین میں جہری قرأت کیوں ہے؟ میں نے اس سے پوچھا: آپ کے یہاں روز زفاف ہوتا ہے یا نہیں؟ شادی کے بعد رخصی دن میں عمل میں آتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا: دن میں بھی عمل میں آتی ہے (یورپ اور امریکہ میں دن میں بھی رخصتی ہوتی ہے) میں نے کہا: جب رخصتی دن میں ہو اور روز ِ زفاف ہو تو پہلی ملاقات میں میاں بیوی گپ کرتے ہیں یا نہیں؟ اس نے کہا: کرتے ہیں، میں نے کہا: یہی آپ کے سوال کا جواب ہے، اس نے کہا: میں سمجھا نہیں۔ میں نے کہا: یہ موقع کی بات ہے اور خاص موقعوں کے احکام الگ ہوتے ہیں، جمعہ کے دن اورعید کے دن آدمی نہاتا ہے، نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنتا ہے، خوشبو لگاتا ہے اور بڑے اجتماع میں پہنچتا ہے۔ ایسے موقعہ پر طبیعت میں انبساط پیدا ہوجاتا ہے، اس لئے قرآن زور سے پڑھا جاتا ہے ۔
      یہ دقیق ترین مسئلہ تھا مگر میں نے اس کو محسوس بنادیا تو اس کی سمجھ میں آگیا، یہ سب حجةاللہ کی برکت ہے، حجۃ اللہمیں یہ مسئلہ نہیں آیا، مگر پڑھتے پڑھاتے ایک مزاج بن گیا، اب شریعت کا کوئی مسئلہ ہو میں اس کو محسوس بناکر پیش کرسکتا ہوں۔
       غرض حکیم الاسلام نے فرمایا: شاہ صاحب کوڈیڑھ سو سال پہلے یہ بات محسوس ہوگئی تھی کہ اب عقلیت کا دور ختم ہونے والا ہے اور سائنس کا دور شروع ہونے والا ہے، جس میں معنویات کومحسوس بناکر پیش کرنا ہوگا، اس لئے شاہ صاحب نے حجۃ اللہلکھی تاکہ دو سو سال کے بعد جب یہ دور شروع ہو، علماء امت اس قابل ہوجائیں کہ وہ ہر مسئلہ کو محسوسات کے دائرہ میں لاکر افہام وتفہیم کرسکیں۔
      مشکل کتاب کو سمجھنے کا طریقہ
      اگر آپ کوئی گہرا فن اور گہری کتاب سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ شاہ صاحب نے یہ بتایا ہے کہ پہلے اس کے آلات جمع کریں، کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لئے جو ابتدائی معلومات ضروری ہوتی ہیں ان کوجمع کریں، پھر تدریجاً آگے بڑھیں، ایک دم چھلانگ نہ لگائیں، مثلاً: حجۃ اللہ میں ایک مضمون ہے، اس میں ہے کہ واقعات سلسلۂ مُعِدَّات ہیں، اس کو سمجھنے کے لئے پہلے مُعِدّ کو سمجھنا پڑے گا، اس کے بغیر یہ بات نہیں سمجھ سکتے، غور کریں کہ یہ کس فن کی بات ہے؟ یہ منطق کی اصطلاح ہے، منطق کی کتابوں میں معدّ وہ چیز ہے جو موجود ہوکر فنا ہوجائے تب اگلا فرد وجود میں آتا ہے، جیسے میرا ایک قدم وجود میں آیا، پھر دوسرا قدم کب وجود میں آئے گا؟ جب میں پچھلا پیر اٹھاکر آگے رکھونگا تب دوسرا قدم وجود میں آئے گا،اب پچھلا قدم ختم ہوگیا، اور دوسرا قدم وجود میں آگیا، اسی طرح اعداد (گنتی) بھی سلسلہ معدات ہیں ، چھ میں ایک ملائیں تب سات بنیں گے، اب چھ ختم ہوگئے اور سات وجود میں آگئے، اسی طرح سات میں ایک ملایا تو آٹھ بنا، اب سات ختم ہوگیا اور آٹھ وجود میں آگیا۔
       غرض لفظ یا اصطلاح جس فن کی ہے اس فن میں جاکر جب تک معنی متعین نہیں کریں گے پلّے کچھ نہیں پڑے گا، اس لئے شاہ صاحب نے فرمایا کہ جب کوئی مشکل مضمون ہو یا مشکل کتاب ہو اور آپ اس کوسمجھنا چاہیں تو پہلے اس کے آلات مہیا کریں، جو تمہیدی باتیں ضروری ہیں ان کو پہلے حاصل کریں، پھر تدریجاً آگے بڑھیں۔ تدریج سے ذہن میں آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، او ر رفتہ رفتہ آدمی مجتہد بن جاتا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ رات میں سوتے نہیں تھے، سوچتے تھے اور جب کوئی دقیق مسئلہ حل ہوتا تو صحن میں ناچتے تھے، اور خوش ہوکر فرماتے: بادشاہوں کے لڑکوں کو یہ نعمت کہاں حاصل ! امین اور مامون کو یہ نعمت کہاں حاصل ! بہت خوش ہوتے۔
      معلوم ہوا کہ سوچنا بھی ایک مطالعہ ہے، حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمہ اللہ جب درس کے لئے آتے تو پہلے وضو کرتے، عمامہ باندھتے، پھر تپائی پر رکھ کر ترمذی شریف کھولتے اور جو ابواب پڑھانے ہوتے ان کو ایک نظر دیکھتے، پھر کتاب بند کرکے دس منٹ سوچتے، پھر پڑھانے کے لئے چل دیتے، یہ سر جھکاکر بیٹھنا ہی ان کا مطالعہ تھا کیونکہ مواد تو سارا دماغ میں اکٹھا ہوتا ہی تھا، صرف ترتیب دینے کی ضرورت تھی کہ مسئلہ کو کس انداز سے بیان کرنا ہے۔
     شاہ صاحب نے حجۃاللہ کے مقدمہ میں لکھا ہے:وکذلک کلُّ مسلم یَتَرَائٰ  بادیَ الرأی: أن البحث عنہ مستحیل، ولااِ حاطةَ بہ ممتنعة، ثم اِذا ارْتِیْضَ بِأَدَوَاتِہِ، وَتُدُرِّجَ فی فہم مقدِّماتہ حصل التمکُّن فیہ، وتیسر تأسیس مبانیہ، وتفریعُ فروعہ، وزویہ: اسی طرح ہر فن سرسری نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے محبت کرنا ممکن ہے، اور اس کا احاطہ کرنا محال ہے، مگر جب اس کے اوزاروں کے ذریعہ اس کو سدھالیا جاتا ہے، اور آہستہ آہستہ اس کی تمہیدی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس میں جماؤ حاصل ہوجاتا ہے، اور اس کی بنیادوں کو قائم کرنا اور اس کی جزئیات ومتعلقات کی تفریع کرنا آسان ہوجاتا ہے( رحمۃاللہ ١:١٢١)
      حجۃاللہ مشکل کیوں ہے؟
      اور حجۃ اللہ دو وجہ سے مشکل ہے، ایک: اس میں ایجاز( اختصار) ہے اور جب بھی کلام میں ایجاز ہوتا ہے بات مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ دوم: مضامین بہت بلند ہیں، میں نے رحمة اللہ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ شاہ صاحب عرش پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ ان مضامین کو فرش پر لانا مشکل ہوتا ہے، جب تک ان کی اصطلاحات حل نہ کی جائیں، ان کے انداز بیان سے واقفیت پیدا نہ کی جائے مضمون سمجھ میں نہیں آتا۔
    حجۃ اللہ کیسے سمجھیں؟
     مگر اب حجۃ اللہ کا سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے، آپ رحمۃ اللہ الواسعہ لے کر بیٹھیں اور ایک مقدار متعین کریں کہ مجھے روزانہ ایک مسئلہ پڑھنا ہے یا تین صفحے پڑھنے ہیں، اس سے زیادہ نہ پڑھیں، اس کو اپنی کاپی میں دوسرے لفظوں میں لکھیں، لمبے مضمون کو مختصر کریں اور چوبیس گھنٹے اس مضمون کودماغ میں گھمائیں، ساتھیوں سے مذاکرہ کا موقعہ ملے تو مذاکرہ کریں، ساتھی نہ ملیں تو چند تپائیاں سامنے رکھ کر تقریر کریں، اس سے مضمون یاد بھی ہوگا اور ذہن میں بھی بیٹھے گا۔
       البتہ حجۃ اللہ کی دوقسمیں ہیں: قسم اول میں سات مباحث ہیں اور ہر مبحث میں متعدد ابواب ہیں، اگر کوئی ان سات مباحث پر قابو پالے تو شریعت کا ہر مسئلہ حل کرسکتا ہے، ہر مسئلہ کا راز اور حکمت پاسکتا ہے۔ حجۃ اللہمیں اُس مسئلہ کا ہونا ضروری نہیں،اور قسم ثانی میں حضرت نے مشکوٰة شریف کو سامنے رکھ کر اسی ترتیب سے حدیثیں لکھی ہیں اور حدیثوں میں جو حکم آیا ہے اس کا راز بیان کیا ہے اس کی حکمت بیان کی ہے۔
       قسم ثانی کا سمجھنا آسان ہے، کہیں کہیں کوئی بات مشکل آجاتی ہے، ورنہ وہ بہت آسان ہے، ہر پڑھا لکھا آدمی اس کو سمجھ سکتا ہے، پس جو حضرات حجۃ اللہکا مطالعہ کریں وہ پہلے قسم ثانی پڑھیں، جب اس سے فارغ ہوں تو قسم اول شروع کریں، رحمة اللہ میں میں نے اس کی ایک مثال دی ہے۔ ایک ماہر باورچی ہے، اس کے پاس پلاؤ پکانے کا ایک فارمولہ ہے، مگر مجمع میں باورچی اس فارمولہ کو بتائے تو ضروری نہیں کہ ہر آدمی اس فارمولہ کے مطابق پلاؤ پکالے، کوئی کامیاب ہوسکتا ہے اور کوئی ناکام۔ لیکن اگر وہ باروچی پلاؤ پکاکر سب کے سامنے پلیٹوں میں کھاناسجادے تو پھر کیا دیر ہے؟ ہاتھ بڑھائے اور کھانا شروع کرے۔ پہلی قسم میں حضرت نے اصول وضوابط بیان کئے ہیں اور اصول وضوابط ہمیشہ نظری ہوتے ہیں اور نظری  چیزوں کا سمجھنا دشوار ہوتا ہے اس لئے قسم اول کا سمجھنا دشوار ہے، اور قسم ثانی میں حدیثوں کو سامنے رکھ کر ان میں جو احکام آئے ہیں ان کے اسرار وحکم بیان کئے ہیں، یعنی اصول وضوابط کے مطابق حدیث میں مذکور احکام کے اسرار وحکم بیان کرکے کھانا سامنے کردیا ہے، اب کیا کمی ہے آگے بڑھو اور خوانِ نعمت سے فائدہ اٹھاؤ۔
       حجۃ اللہ کے ہم پلہ کوئی کتاب نہیں
       حجۃ اللہ کے انداز پر اور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن حجۃ اللہ کے ہم پلہ کوئی کتاب نہیں، حضرت تھانوی  کی المصالح العقلیۃ فی الأحکام النقلیۃہے، اس میں صرف احکام کی حکمتیں ہیں کہ یہ حکم کیوں ہے؟ وضوء میں چار فرض کیوں ہیں؟ اطراف کیوں دھوئے جاتے ہیں؟ لیکن اس میں کوئی ایسا فارمولہ نہیں ہے کہ وہ ہم جان لیں تو خود شریعت کے احکام کی حکمت نکال لیں، اور حجۃ اللہ میں آدھی کتاب میں ایسے ہی فارمولے بیان کئے ہیں ۔ علامہ حسین جسر رحمہ اللہ نے بھی عقائد پر ایک کتاب لکھی ہے، انھوں نے بھی احکام کی علتیں بیان کی ہیں، مگر فارمولہ بیان نہیں کیا، الغرض جو بھی کتاب اس باب میں لکھی گئی ہے وہ حجۃ اللہ کے ہم پلہ نہیں، حجۃ اللہ پہلی اور آخری کتاب ہے، اس میں جہاں احکام کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں وہیں اصول اور ضابطے بھی بیان کئے گئے ہیں۔
      نظام الاوقات بنانا ضروری ہے
     مگرہمارے فضلاء پر ایسا احساس کمتری چھایا ہوا ہے کہ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے، بھائیو! کب تک سننے کے محتاج رہوگے، پڑھنا شروع کرو، دس سال تک کانوں سے علم حاصل کیا اب آنکھوں کو استعمال کرو، اور اس کے ذریعہ علم حاصل کرو، کہتے ہیں: اجی وقت نہیں، فرصت نہیں، بھائی! جب آپ چاہیں گے وقت بھی نکل آئے گا اور فرصت بھی مل جائے گی۔ اپنا حساب کرو، ہم کم از کم چار گھنٹے فضولیات میں ضائع کرتے ہیں، اِدھر کھڑے ہیں ،اُدھرباتیں کررہے ہیں، خواہ مخواہ مس کال ماررہے ہیں، پیسہ بھی برباد کررہے ہیں اور وقت بھی ضائع کررہے ہیں، ہمیں چاہئے کہ وقت کی حفاظت کریں، وقت کو بچاکر پڑھنے کا نظام بنائیں۔ نظام الاوقات بنائے بغیر کچھ نہیں ہوگا، طے کرلیں کہ فلاں وقت یہ کرنا ہے اور فلاں وقت وہ، رات کو دس بجے سے بارہ بجے تک ضرور پڑھنا ہے، اور یہ پڑھنا ہے ، اور اس طرح پڑھنا ہے، کچھ بھی ہوجائے پڑھنا ہے۔ حضرت تھانوی قدس سرہ کا واقعہ ہے: ایک مرتبہ ان کے استاذ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب تھانہ بھون آئے، حضرت تھانوی بہت خوش ہوئے اور زور کی دعوت کی، کھانے کے بعد مجلس میں بیٹھے۔ حضرت تھانوی نے عرض کیا: حضرت ! اس وقت میرا بیان القرآن لکھنے کا معمول ہے اگر اجازت ہو تو میں لکھنے کے لئے چلا جاؤں؟ حضرت نے فرمایا: بالکل جاؤ اور لکھو! حضرت تھانوی چلے گئے، اور دس منٹ کے بعد آگئے، حضرت نے پوچھا: کیوں آگئے؟ کہنے لگے: حضرت! میں نے اپنا معمول پورا کرلیا، اور چونکہ آپ تشریف فرما ہیں اس لئے لکھنے کو جی نہیں چاہتا، دس منٹ لکھا اور معمول پورا کرلیا، اس طرح آدمی نظام الاوقات بنائے تو کامیابی حاصل ہوتی ہے، یہ نہیں کہ کسی دن موقع ملا تو پڑھ لیا اور سات دن ناغہ کردیا۔ کیونکہ آٹھویں دن پڑھنے کو جی نہیں چاہے گا، اس لئے ایک وقت مقرر کرکے مطالعہ میں لگ جاؤ اور پابندی سے لگے رہو تو استعداد بڑھے گی، دماغ میں معلومات جمع ہونگی، اور رفتہ رفتہ دین کا علم پکا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حجۃاللہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
وآخر دعوانا أن الحمدﷲ رب العالمین۔

Thursday, October 27, 2011

تعارف رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 زبانِ قلم میں یہ قدرت کہاں ٭  جو ہو حمدِ خالق میں گوہر فشاں

بے نہایت حمدوسپاس اس ذات ِ قدسی والا صفات کے لئے ہے جس نے مشت ِ خاک کو جامۂ انسانیت پہنایا۔ پھر اس کے سر پر اشرفیت کا تاج رکھا۔ اور جس طرح اس کی جسمانی ضروریات کا انتظام فرمایا، اس کی روحانی ضروریات بھی الہام فرمائیں۔ ایسی ہدایات نازل فرمائیں جن کی پیروی سے کلاہ ِ دہقاں بآفتاب رسید! انسان رشک ِ کرُّو بیان بن گیا۔ اور ایسے احکام نازل فرمائے جن کی تعمیل میں سعادت ِ دارین مضمر ہے۔ دنیا کی خوبی اور آخرت کی بھلائی اسی کی رہین ِ منت ہے۔
  اور بے پایا ںرحمتیں اور سلامتی نازل ہو ان تمام برگزیدہ ہستیوں پر جنھوں نے انسانوں کو سنوارنے میں اور ان کو احکام الٰہی کے فوائد وبرکات سمجھانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ خاص طور پر اس گروہ کے قافلہ سالار، سید ابرار، غایت ِ کائنات، فخر موجودات، حضرت ِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم پر، جنھوں نے ہر طرح سے لوگوں پر اتمام حجت کردیا اور دین الٰہی کا کوئی گوشہ تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
  اورآپؐ کی آل واصحاب پر، اور آپؐ کے دین متین کے حاملین: اساطین ِ امت پر، جنھوں نے شریعت ِ مطہرہ کے رموز واسرار کو طشت از بام کردیا اور حقائق ودقائق کو پوری طرح واشگاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ امت کی طرف سے ان حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔ اور ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں( آمین)
حمد وصلوٰة کے بعد عرض ہے کہ ''حجۃ اللہ البالغہ ''کو امام اکبر ، مجدد اعظم، محدث کبیر، مفکر ملت ، حکیم الاسلام، جامع شریعت وطریقت، حضرت اقدس مولانا قطب الدین احمد معروف بہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ کی تصانیف میں واسِطَةُ العِقْد ( ہار کے بیچ کے عمدہ جوہر )کا مقام حاصل ہے۔البالغةکے معنی ہیں: پختہ، مضبوط اور کامل۔ روح المعانی میں ہے: البالغة أی التی بَلَغَتْ غایةَ المتانةِ والقوةِ علی الثبات۔ پس حجۃ اللہ البالغہ کے معنی ہیں: کامل برہان الٰہی ۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ نے یہ نام سورة الانعام کی آیت 149 سے اخذ فرمایا ہے۔ اس آیت میں تکلیف شرعی کے راز، مجازات کی حکمت اور احکام شرعیہ کے مبنی برحکمت ومصالح ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ جس کی تفصیل آگے وجہ تسمیہ کے عنوان کے تحت آرہی ہے۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ کی اس کتاب کا موضوع بھی یہی مضامین ہیں۔ اس لئے آپ نے اس کتاب کا نام حجۃ اللہ البالغہ( کامل برہان الٰہی) تجویز کیا ہے۔ یہ کتاب بجا طور پر آپ کی تصنیفات میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ سید محترم، حضرت اقدس مولانا ابو الحسن علی میاں صاحب ندوی رحمہ اللہ اس کتاب کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ:
  '' شاہ صاحب کی یہ مایۂ ناز تصنیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان معجزات میں سے ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکی وفات کے بعد، آپؐ کے امتیوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے، اور جن سے اپنے وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز نمایاں اور اللہ کی حجت تمام ہوئی''
   شاہ صاحب رحمہ اللہ کو ادراک ہوگیا تھا، اور کتاب کے مقدمہ میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے کہ آگے عقلیت پسندی کا دور شروع ہونے والا ہے، جس میں احکام شریعت کے متعلق اوہام وشکوک کی گرم بازاری ہوگی۔ اسی خطرہ کا سدّ باب کرنے کے لئے آپ نے یہ بے نظیر کتاب لکھی ہے۔ اس میں آپ نے تعلیمات اسلام کو مطابق فطرت اور احکام دینی کو مبنی برحکمت ثابت کیا ہے۔ ہر حکم الٰہی اور امر شریعت کے اسرار ومصالح نہایت بلیغ اور مدلل انداز میں بیان فرمائے ہیں۔ جس سے ایک طرف تو متشککین اور مترددین کے شکوک وشبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے اور دوسری طرف معترضین کے اسلام پر معاندانہ اعتراضات کا منہ توڑ جواب مل جاتا ہے۔
  اس سلسلہ میں حضرت اقدس مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ کی اپنی سرگذشت ملاحظہ فرمائیں:
  '' میں اپنی زندگی میں کسی بشر کی کتاب سے اتنا مستفید نہیں ہوا، جس قدر کہ اس کتاب سے خدا نے مجھے فائدہ پہنچایا۔ میں نے اسلام کو ایک مکمل اور مرتبط الاجزاء نظام حیات کی حیثیت سے اس کتاب ہی سے جانا ہے۔ دین مقدس کی ایسی بہت سی باتیں جن کوپہلے میں صرف تقلیداً مانتا تھا، اس جلیل القدر کتاب کے مطالعہ کے بعد الحمد للہ میں ان پر تحقیقاً اور علی وجہ البصیرت یقین رکھتا ہوں ''
غیر مقلد عالم جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب''اتحاف النبلاء''میں تحریر فرماتے ہیں:
''ایں کتاب اگرچہ در علم ِ حدیث نیست ، اَمّا شرح ِ احادیثِ بسیار دراں کردہ۔وحِکَم واسرار آں بیان نمودہ۔تا آنکہ در فن خودغیرمسبوق علیہ واقع شدہ۔ ومثل آں دریں دوازدہ صد سال ہجری، ہیچ یکے را از علمائے عرب وعجم، تصنیفے موجود نیست''
  اس فارسی عبارت کا ترجمہ یہ ہے:
   '' یہ کتاب اگرچہ فن حدیث میں نہیں ہے، مگر اس میں بہت سی احادیث کی شرح کی ہے۔ اور ان کی حکمتیں اور ان کے راز بیان کئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ کتاب اپنے فن میں بے نظیر واقع ہوئی ہے۔ اور اس جیسی کتاب ان اسلامی بارہ صدیوں میں، عرب وعجم کے کسی عالم کی موجود نہیں ہے''
   حجۃ اللہ البالغہ کے اردو تراجم:
   اس کتاب کے درج ذیل اردو تراجم ہوچکے ہیں:
  1 :  نعمۃاللّٰہ السابغۃ: یہ ترجمہ غالباً سب سے پہلاترجمہ ہے۔مترجم حضرت مولانا ابو محمد عبد الحق صاحب حقانی رحمہ اللہ(١٢٦٧ـ١٣٣٥ھ) صاحب تفسیر حقانی ہیں۔١٣٠٢ھ میں مولانا نے یہ ترجمہ بہ تحریک جناب مولانامحمد فضل الرحمن صاحب رئیس اعظم عظیم آباد(پٹنہ) کیا ہے۔ یہ ترجمہ دو جلدوں میں متن کے ساتھ مطبوعہ ہے اور آج کل بازار میں یہی ترجمہ دستیاب ہے۔
  2 : آیات اللّٰہ الکاملة: از جناب مولانا خلیل احمد بن مولانا سراج احمد اسرائیلی سنبھلی رحمہ اللہ (متوفی ١٣٤٠ھ) یہ ترجمہ متن کے بغیر ٦٢٠ صفحات میں ١٣١٥ھ مطابق ١٨٩٧ء میں لاہور سے طبع ہوا ہے۔
  3 :   شموس اللّٰہ البازغۃ: از حضرت مولانا عبد الحق صاحب ہزاروی رحمہ اللہ۔ یہ ترجمہ   ١٣٥١ھ میں شیخ الٰہی بخش نے لاہور سے شائع کیاہے۔ یہ ترجمہ سرتاسر آیات اللہ الکاملہ کی نقل ہے۔ صرف شروع کے چند ابواب کا ترجمہ بدلدیاہے۔(یہ تینوں ترجمے میرے پاس ہیں)
  4 : ان کے علاوہ ایک اور ترجمہ جناب محمد بشیر صاحب نے کیا ہے اور کچھ تشریحی فوائد بھی شامل کئے ہیں۔ لیکن یہ ترجمہ نامکمل ہے اور مبحث دوم پر ختم ہوجاتا ہے۔ یہ چھوٹے سائز پر بغیر متن کے شائع ہوا ہے۔ میں نے یہ ترجمہ نہیں دیکھا۔ جناب مولانا معراج محمد بارق صاحب نے حجۃاللہ مترجمہ مولانا حقانی کے مقدمہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
  5 :  لاہور سے مولانا عبد الرحیم صاحب کا ترجمہ بھی بغیر عربی متن کے شائع ہوا ہے۔ میں نے یہ ترجمہ بھی نہیں دیکھا۔ مولانا بارق صاحب نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔
  6 :  برہان الٰہی: از مولانا ابو العلاء محمد اسماعیل صاحب گودھروی ( گجراتی) یہ غالباً آخری ترجمہ ہے۔ مترجم غیر مقلد عالم ہیں آپ نے یہ ترجمہ بہ تحریک مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا محمد منظور نعمانی رحمہم اللہ کیا ہے۔ اور شیخ غلام علی نے اس کو لاہور سے شائع کیا ہے۔ پھر دوبارہ یہ شائع نہیں ہوا۔ نہایت نایاب ہے۔ میرے پاس یہ ترجمہ ہے اور میں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔
   اس آخری مترجم نے سابقہ تراجم پر درج ذیل تبصرہ کیا ہے:
   '' اس کتاب کے اردو تراجم پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ لیکن وہ ترجمے کیا ہیں؟ ایک چیستان ہیں۔ جس میں مغلق مقامات کو اور بھی زیادہ مغلق کردیا گیا ہے۔ اکثر الفاظ ِ مفردہ کا ترجمہ الفاظ مفردہ سے کیا گیا ہے۔ جس سے مطلب کی وضاحت تودرکنار،الجھاؤ اور بڑھ گیا ہے۔ ایسے مقامات اور الفاظ کو جملوں اور سطروں سے واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تحت َ اللفظ یا تحت َ اللفظ جیسا ترجمہ اس کتاب کی شان کے خلاف ہے۔ بلکہ کتاب کے مطالب کو بگاڑ نا ہے''( برہان الٰہی صفحہ ٢٣)
    مگر یہ آخری ترجمہ بھی سابقہ تراجم سے کچھ بہتر نہیں ۔ مترجم نے بیشک جگہ جگہ شاہ صاحب کے مختصر الفاظ کو جملوں اور سطروں سے واضح کیا ہے، مگر وہ '' من چہ سرایم وطنبورئہ من چہ سراید'' کا مصداق ہے۔
   علاوہ ازیں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ نے المصالح العقلیة للأحکام النقلیة ( جو اب'' احکام اسلام: عقل کی روشنی میں '' کے نام سے شائع ہوتی ہے) مطلق تراجم کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
   '' اس مبحث میں ( یعنی مصالح عقلیہ کے بیان میں) ہمارے زمانہ سے کسی قدر پہلے زمانہ میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب حجة اللہ البالغہ لکھ چکے ہیں ۔ سنا ہے کہ ترجمہ اس کا بھی ہوچکا ہے۔ مگر عوام کو اس کا مطالعہ مناسب نہیں کہ (اصل کتاب) غامض زیادہ ہے( یعنی صرف ترجمہ سے کتاب سمجھ میں نہیں آسکتی )( دردیباچہ مصالح عقلیہ)
   شرح کی ضرورت:
    غرض حجۃ اللہ البالغہ کے لئے شرح کی ضرورت تھی۔ اور ہر کوئی اس ضرورت کو محسوس بھی کرتا تھا۔ مگر چند دشواریاں ایسی تھیں، جن کی وجہ سے آج تک کسی نے یہ فریضہ انجام نہیں دیا۔ وہ دشواریاں یہ ہیں:
  ١:  مصنف کا البیلا انداز نگارش: شاہ صاحب قدس سرہ عرش پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ شرح میں ان مضامین کو جب تک فرش پر نہ لایا جائے، بات نہیں بن سکتی۔ اور یہ کام کتنا دشوار ہے اس کا اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے۔
  ٢:    عبارت میں غایت درجہ ایجاز:شاہ صاحب نغز نویس ہیں۔ایک کلمہ بھی زائد از حاجت نہیں لاتے۔ بلکہ بعض جگہ تو عبارت میں بخیلی کار فرمانظر آتی ہے۔یہ تو خیر ہوئی کہ شاہ صاحب مترادفات استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ مفرد کی مفرد سے ، جملہ ناقصہ کی جملہ ناقصہ سے اور جملہ تامہ کی جملہ تامہ سے تفسیر کرتے ہیں، جس سے دال دَلیا ہوجاتا ہے۔ اگر شاہ صاحب کی نگارش میں یہ بات نہ ہوتی تو بہت سے مضامین لوگوں کی گرفت سے باہر رہ جاتے ۔
  ٣:  مخصوص اصطلاحات    :شاہ صاحب کی اپنی کچھ مخصوص اصطلاحات ہیں، جب تک ان کو کما حقُّہ نہ سمجھ لیا جائے مضمون ذہن نشین نہیں ہوسکتا۔ اور نہ شاہ صاحب نے اپنی اصطلاحات کی کسی جگہ تشریح کی ہے، نہ کسی اور نے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے۔
  ٤:  فکری بلندپروازی: شاہ صاحب کی فکری بلند پروازی کا یہ حال ہے کہ بعض جگہ تو ان کے پیچھے چلنا بھی دشوار ہوجاتا ہے اور آپ ہی کی لکھی ہوئی کہاوت آپ پر صادق آتی ہے کہ:'' جناب تو شیر پر سوار ہیں، آپ کے پیچھے سواری کرنے کی ہمت کون کرسکتا ہے!''
  ٥:    مضامین کی جدّت       :شاہ صاحب کی ہر بات انوکھی ہوتی ہے۔ ہر مصنف کی باتوں کو حل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ مصادر ومراجع مل جاتے ہیں، مگر شاہ صاحب کی کوئی بات کسی کتاب میں نہیں ملتی، پھر یہ مضامین کیسے حل کئے جائیں!
    غرض مذکورہ بالا وجوہ سے اور ان کے علاوہ دیگر وجوہ سے یہ قرض باقی چلا آرہا تھا کہ ایک بڑھیا اپنا مٹھی بھر کاتا ہوا سوت لے کر بازار مصر میں یوسف  کی خریدار بن کرآگئی ۔ دیکھئے اس کا نصیب کیسا ہے!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭    میں نے یہ کتاب حکیم الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد طیب صاحب قاسمی قدس سرہ (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) سے پڑھی ہے۔ حضرت کو شاہ صاحب کے علوم پر کمال ِ قدرت حاصل تھی۔مگر افسوس کہ درس میں چند ابواب ہی شامل تھے۔ کاش حضرت سے پوری کتاب یا کتاب کا معتد بہ حصہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی۔
  پھر جب میں نے العون الکبیر فی حلِّ الفوز الکبیر لکھی تو اس میں یہ التزام کیا تھا کہ شاہ صاحب کے کلام کی خود شاہ صاحب کے کلام سے شرح کی جائے۔ چنانچہ راندیر کے قیام کے زمانہ میں اس مقصد سے پہلی مرتبہ پوری کتاب کا مطالعہ کیا ۔ مگر اس وقت کتاب کماحقہ حل نہیں ہوئی تھی۔
  پھر جب ١٤٠٨ھ میں  دارالعلوم دیوبند میں اس کتاب کا درس مجھ سے متعلق کیا گیا تو میں نے از سر نو پوری کتاب کا مطالعہ کیا۔ اورمطبوعہ صدیقی سے پوری کتاب کا مقابلہ بھی کیا۔ اس مقابلہ سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ کتاب کا بڑا حصہ بحمداللہ حل ہوگیا اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کتاب میں کچھ ایسی طباعتی اغلاط ہیں جن کی تصحیح کے بغیر کتاب کماحقہ حل نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اسی وقت سے مجھے کتاب کے مخطوطوں کی تلاش رہی۔ بالآخر ''جوئندہ یا بندہ ''مقصد میں کامیابی ہوئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭                                                              میری خواہش یہ بھی تھی کہ شرح لکھنے سے پہلے کم از کم ایک بار پوری کتاب پڑھالوں ۔ کیونکہ پڑھانے سے مضامین کی تسہیل کا طریقہ ہاتھ آجاتا ہے۔ مگر یہ بات مقدر نہ تھی۔ ایک سال  دارالعلوم دیوبند  کے استاذ، برادر عزیز جناب مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری زید شرفہ اور مرحوم نور چشم مولوی رشید احمد رحمہ اللہ( متوفی ١٤١٥ھ) نے اسی مقصد سے حجۃ اللہ البالغہ کے سبق میں شرکت بھی کی تاکہ وہ تقریرضبط کریں ۔ عصر کے بعد بھی قسم دوم سے سبق شروع کیا گیا۔ مگر طلبہ نے اس وقت کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری زید مجدہ سے شکایت کی کہ درس املاء کرانے سے کتاب سمجھ میں نہیں آتی۔ کلام سننے میں تسلسل باقی نہیں رہتا۔ ذہن بات سے ہٹ جاتا ہے، چنانچہ وہ سلسلہ موقوف کرنا پڑا۔ اور عصر کے بعد کا سبق بھی چند روز کے بعد بند ہوگیا۔
   پھر اتفاق یہ ہوا کہ   ١٤١٨ھ میں طلبہ نے پورے سال کی تقریر ٹیپ کی اور صاف کرکے مجھے دی تاکہ میں اس کو مرتب کروں۔ چنانچہ   ١٤١٩ھ میں جب سبق شروع ہوا تو میں نے اس تقریر کو مرتب کرنا شروع کیا۔ مگر وہ تقریر چوتھے مبحث پر ختم ہوگئی، کیونکہ درس میں کتاب اتنی ہی پڑھائی جاتی تھی۔ اس طرح مجبوراً کام آگے بڑھاناپڑا۔ اور بحمد اللہ دو سال کے عرصہ میں کتاب کے ایک معتد بہ حصہ پر کام ہوگیا۔ اس میں سے یہ جلد اول قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ اور دوسری جلد کی کتابت چل رہی ہے۔ وہ بھی ان شاء اللہ جلد پیش کی جائے گی۔(اب یہ شرح پانچ جلدوں میں مکمل ہوگئی ہے۔مکتبہ حجاز)
    شرح کا انداز
  شرح میں انداز یہ اختیار کیا گیا ہے کہ پہلے ایک عنوان قائم کرکے مسئلہ کی تقریر کی گئی ہے، جس طرح سبق میں کی جاتی ہے اور بات واضح کرنے کے لئے مثالوں وغیرہ کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اورکہیں کتاب کی ترتیب بھی بدل گئی ہے۔ غرض تقریر میں ہر بات شاہ صاحب کی نہیں ہے، اس میں میں نے اپنی باتیں بھی ملائی ہیں۔ البتہ مدعی شاہ صاحب ہی کا ہے۔ اور یہ طریقہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ کتاب حل ہوجائے۔
  پھر متعلقہ عربی عبارت ضروری اعراب کے ساتھ دی گئی ہے۔ پھر درسی اندازکا ترجمہ کیا گیاہے۔تاکہ طلبہ ترجمہ کو عبارت سے ملاکر کتاب حل کرسکیں۔ پھر لغات کے عنوان سے مشکل الفاظ کے معانی اور ضروری ترکیب وغیرہ دی گئی ہے۔ اور کسی بات کی تشریح ضروری معلوم ہوئی تو وہ بھی کی گئی ہے۔ غرض متن اور ترجمہ میں میں نے کوئی بات اپنی طرف سے نہیں ملائی ۔ اور متن کو لکیروں کے چوکٹھے میں رکھاگیا ہے۔ بعض جگہ میں نے اصل کتاب میں عناوین بڑھائے ہیں۔ ان کو چوکٹھے سے باہر اس طرح ]                [کی عمودی قوسین میں رکھا گیا ہے۔ اورمتن میں جہاں کہیں نمبرڈالے گئے ہیں ان کو بھی عمودی قوسین میں رکھا ہے۔
شرح کے مآخذ
  کتاب حل کرنے کے لئے میرے پاس کوئی ما ٔخذ نہیں تھا۔ کتاب کے چار تراجم ضرور تھے مگر وہ بوقت حاجت غائب ہوجاتے تھے یا الجھاکر رکھ دیتے تھے۔ البتہ اچانک ایک امداد غیبی ہوئی،پاکستان کے شہر چشتیان کے جناب مولانا عبد القدیر صاحب تشریف لائے۔ میں نے شرح لکھنے کا تذکرہ کیا، تو انھوں نے بتایا کہ ان کے یہاں حضرت استاذ الاستاذ مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ کی ایک تقریر ہے جو قلمی ہے۔ میں نے اس کی خواہش ظاہر کی، اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائیں مولانا موصوف کو کہ انھوں نے واپس لوٹتے ہی اس تقریر کی دو عدد فوٹو کاپیاں بھیج دیں۔ اس تقریر سے کتاب حل کرنے میں بڑی مدد ملی۔
  مولانا سندھی رحمہ اللہ نے ایک بار مکہ مکرمہ میں حجۃ اللہ پڑھائی تھی۔تلامذہ نے ان کی تقریر منضبط کرلی تھی۔ یہ تقریر عربی میں قید تحریر میں لائی گئی ہے اور کتاب کے تین ربع تک ہے۔ آخر کا ایک ربع اس میں شامل نہیں ہے۔ اس تقریر میں عام طور پر مفردات کی تشریح ، ضمائر کے مراجع کی تعیین اور عبارت کی تصحیح اورکہیں کہیں افادات ہیں۔ کسی مسئلہ کو یا عبارت کو نہیں سمجھایاہے۔ مگر بہرحال اس سے بڑی مدد ملی۔ اللہ تعالیٰ ان تلامذہ کوجنت کے بلند درجات عطا فرمائیں۔ انھوں نے ایک قیمتی ذخیرہ محفوظ کردیا۔ میں نے شرح میں کہیں کہیں وہ افادات نقل بھی کئے ہیں ۔ اور آخر میں ( سندی ) لکھا ہے۔ غرض کتاب حل کرنے کے لئے میرے پاس یہی ایک ما ٔخذ تھا ۔ دوسری کوئی چیز دستیاب نہیں تھی۔ اس لئے شرح میں اگر کوئی لغزش ہوگئی ہے تو اس کے لئے وجہ جواز ہے ۔
 احادیث کی تخریج
شرح میں کتاب کی احادیث کی تخریج کا معروف طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس سے کتاب بہت طویل ہوجاتی اور قاری مقصد سے دور جا پڑتا۔ میں نے تخریج احادیث کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے:
١:   کتب حدیث کی مراجعت کرکے حدیث کے بارے میں اطمینان کرلیاہے۔ اورعام طور پر صرف مشکوٰة کا حوالہ دیدیا ہے۔ اوراگر حدیث مشکوٰة میں نہیں ملی تو اصل مراجع کا حوالہ دیا ہے۔
٢:اگر کوئی حدیث ضعیف ہے تو اس کی اطلاع دیدی ہے، مزیدوضاحت نہیں کی۔
٣ :  اور اگر کوئی حدیث نہایت ضعیف، ساقط کے درجہ کی ہے تو اس کی پوری وضاحت کی ہے، مثلاً اسی جلد (مبحث خامس باب سوم ) میں یہ حدیث آئی ہے کہ دادی حواء رضی اللہ عنہا نے شیطان کے اغواء سے اپنے بیٹے کانام عبد الحارث رکھا تھا۔ یہ حدیث ترمذی کی ہے، مگر قطعاً باطل ہے، چنانچہ اس پر مفصل کلام کیا ہے۔
٤:  اوراگر کوئی حدیث تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملی تو بس یہ لکھ دیا ہے کہ یہ حدیث مجھے نہیں ملی جیسے جلد اول مبحث پنجم، باب ١٣ کے آخر میں یہ روایت آئی ہے کہ مؤمن کا حصہ عذاب میں سے دنیا کے مِحَن ہیں۔ یہ حدیث مجھے نہیں ملی۔
٥ : علامہ کوثری مصری رحمہ اللہ نے حُسن التقاضی فی سیرة الامام أبی یوسف القاضی کے آخر میں حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ پر یہ تنقید کی ہے کہ آپ دربارۂ احکام وفروع صرف متون ِ احادیث کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔ ان کی اسانید میں نظر نہیں کرتے۔ حالانکہ اہل علم کسی وقت بھی اسانید حدیث سے قطع نظر نہیں کرسکے، اور نہ کرسکتے ہیں۔ حتی کہ صحیحین کی اسانید پر بھی نظر ضروری ہے، چہ جائیکہ دوسری کتب صحاح وکتب سنن وغیرہ۔ اور جب دربارۂ احتجاج فی الفروع اسانید میں نظر ضروری ہے تو باب اعتقاد میں توبدرجۂ اولی اس کی ضرورت واہمیت ہے۔(کوثری کی بات پوری ہوئی)
  اس کی مثالیں اس جلد میں بھی موجود ہیں۔ روح اعظم کی روایت جس کا تذکرہ مبحث اول کے باب سوم میں آیا ہے اورعبدالحارث نام رکھنے کی روایت بے اصل ہے۔ مگر شاہ صاحب قدس سرہ نے ان کومسلمہ حیثیت سے پیش کیا ہے، بلکہ ان پر استدلال کی بنیاد رکھی ہے۔
   قصہ مختصر: کتاب حل کرنے میں میں نے اپنی والی پوری کوشش صرف کرڈالی ہے، کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ رہی یہ بات کہ میں اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہواہوں، تواس کا فیصلہ قارئین کرام کریں گے۔ میں توبس یہ کہہ کر خاموش ہوجاتا ہوں کہ:

سُپردم بتو مایۂ خویش را ٭ تودانی حسابِ کم وبیش را

 والسلام مع الاحترام
  کتبہ
  سعید احمد عفا اللہ عنہ پالن پوری
    خادم  دارالعلوم دیوبند
     ١٥ ربیع الاول ١٤٢١ھ


 

اب تک کے مہربانان کرام